https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=10159402088774262&id=744994261
A new book by Dr-Jawaz Jaffri „ STREETS OF FULL OF LAMPS “ in Urdu language _ STREETS FULL OF LAMPS’Streets full of Lamps’ is the only collection of poetry in Urdu language which deals with the myths from ancient India to Iraq, Egypt, Phenicia, Iran, Rome, Greece, Carthage, America and Scandinavian myths. In these poems, mythological stories have been arranged, some great epics have been clothed in poetry and new mythological stories have been created around the old characters. The focus is on the ancient man and the aspects of his life and questions that are just as important to us today as thousands of years later. Such as mysteries, adventure, importance of fine arts, dream of overcoming death, travel to new lands, Holy prostitution and Revenue, social values, horrible wars, importance of peace, courage, resistance against gods, wonder, how the universe was created, rivalries, jealousy, hatred and love, rule over others and desire for more power , The luxury of the labour of others, the insignificance of man and life, and the worship of invisible powers. The subject of these poems is life, the only difference is that it is the life of our ancestors instead of us.
The last Urdu poem from my new book’ Streets Full Of Lamps’
آئینے سے مکالمہ کرتی عورت
ڈاکٹر جواز جعفری
آئینے سے مکالمہ کرتی عورت !
میں اس آگ میں جل کر
راکھ ھو رھا ھوں
جسے تیرے جسم کی ہری لکڑی
نہیں پہچانتی
اگر تو
اس آگ سے بپتسمہ لیتی
تو تیرے وجود کی خوشبودار مٹی کی
تاثیر بدل جاتی !
اے املتاس کے پھول چننے والی !
میں ان زمانوں سے
تیرے پاؤں کے نقش گننے پہ مامور ھوں
جب کوہ,الپس پہ بیٹھے دیوتا
آسمان کو
زمین سے الگ کرنے میں مصروف تھے
میں نے زمین پر
پہلی بارش برسنے سے پہلے
تیری تمنا کی
میں نے گلاب کی شاخ پہ
پہلا پھول آنے سے پہلے
تیرے ھونٹوں کے لیے زمزمہ آرائی کی
میں نے اس وقت تجھے آواز دی
جب زمین آوازوں سے ناآشنا تھی !
اےدارچینی کے رنگ سے بنی عورت !
تیرا مزاج
لیموں کے رس سے تخلیق ھوا ھے کیا ؟
اے آرزو کی زبان سے بےخبر عورت !
تیری تمنا
مجھے ریزہ ریزہ کر رھی ھوں
اگر میں
روئے زمین پر
کسی ملک کا بادشاہ ھوتا
تو اپنے نام کے ڈھالے گئے
پہلے سکے پر
تیرا نام کندہ کرتا !
( چراغوں سے بھری گلیاں )
آئینہ فرش پر بہہ نکلا
( ڈاکٹر جواز جعفری)
شیراز
( قدیم ایرانی شہر )
کے مضافات میں
رنگ لٹاتی ایک خوب صورت شام
جب جواں سال مشاطہ کے ہنر مند ہاتھ
اپٹن میں تجھے گوند رہے تھے
نیند سے بوجھل میری آنکھیں
موسم کی اولین ترکاریوں جیسے
تیرے اعضا کی پہلی قرات پر مامور ہوئیں
تو مجھے تیرے خواب عطا ہوئے !
رات کے نویں پہر
آسمانی خواب سرا کے دریچے میں
تجھے آئینے سے
بغلگیر ہوتے دیکھ کر
میں نے اپنی قندھاری تلوار کے طلائی دستے کو
چھوا
آئینہ میرے سامنے
فرش پر بہہ نکلا !
اصفہان
( ایران کا قدیم شہر )
کے بازار میں
تیرا سبز ہاتھ
میرے شانے کی زرد شاخ سے
جھڑ گیا
تو میں نے اپنے دونوں ہاتھ
راہ چلتی دیوار سے رگڑے
اور انکار کے راستے پہ ہو لیا
میرے چاروں اور
سیاہ جنگل پھیلنے لگا
جنگل
جس کے مشرقی آسمان پہ بیٹھے
دیوتا
ستارے ایجاد کرتے تھے !
میرا چہرہ
دلمون
( سمیریوں کی جنت )
کی جانب تھا
موت
جس کے زندگی بخش پانیوں پہ
حرف,نارسائی لکھتی تھی
میں نے زیر لب
اپنے شجرہء نسب کی تلاوت کی
تو میرا رہوار
ہوا سے باتیں کرنے لگا
تیری نیلی آنکھ
مجھےحیرت سے دیکھتی رہ گئی !
( چراغوں سے بھری گلیاں )
اساطیری نظم
“’ “’ “’
سپاہیوں نے ہاتھوں میں ترازو اٹھا رکھے تھے
„“ „“ „“ „“ „“ „“ „“
ڈاکٹر جواز جعفری
پانچویں بار
وہ اس نابینا شاعر کے دیس میں
جس کی سورمائی نظمیں
بابل
ایلم
اور روم کے آسمانوں پر تسطیر تھیں
آوارہ گویے
جنہں ملکوں ملکوں گاتے پھرتے تھے
دریائے اردا اور مالوس کے درمیان
ایک ناقابل تسخیر قلعے کے پچھواڑے
مجھ پر منکشف ھوئی
قلعہ
جس کا خمیر سیاہ لکڑی سے اٹھا تھا
لکڑی
جسے پتھر پر فضیلت دی گئی تھی
پتھر
جس کی اوٹ میں
دیوتاؤں کے جلو میں کھڑا ایرس
جنگ کا نقشہ مرتب کر رھا تھا
اس جادو نگاہ نے
اجنبی لہجے میں
کیوپڈ کو آواز دی
اور دشمن کے جواں سال سپاہیوں کے دل
نشانے پے رکھ لیے
اس کے جسم پر سپاہیانہ پوشاک
پہلو میں
قوس,قزح کی کمان
اورچھاگل میں
دریائے اردا کا مقدس پانی تھا
میرے ھونٹ
اس کی گلابی ہتھیلیوں کو چومنے کی تمنا میں
جلنے لگے
مگر میں نے اس کی خواب گاہ سے دور رہنے کی
قسم کھا رکھی تھی
اس کی مٹھی میں
آروس
اور ڈیوائیسس کے عظیم معبدوں سے آئے
سنہری حروف کا جگنو تھا
اور لہجہ
فتح کی خوشخبری سے
گونج رھا تھا !
میں
میدان,جنگ کے کنارے
تلوار کے اجلے صفحے پر
حرف,وصیت تسطیر کر چکا
تو میں اپنی گود میں پڑے
خوش آواز مغنی اپالو کے بربط کی لے پر
مہا بھارت کا رزمیہ گانے لگا
میرے اردگرد بیٹھے جانباز
میری آواز میں آواز ملانے لگے
وہ خوش جمال
اپنے خیمے سے باہر ختن سے آئے ہرنوں کو
خوش خرامی کا ہنر سکھا رھی تھی
میں نے اس کی نیلی آنکھوں میں ابلتے
خواھش کے چشمے کو دیکھا
اور اپنے سر میں
اجنبیت کی خاک ڈالنے لگا !
میں نے اپنے سرخ خون میں دوڑتی
سبز عورت کو
آخری بار زاغ کی آنکھ سے دیکھا
اور غسل,میت کرنے چل دیا
لاڈن
اور
وردار کے زندگی بخش پانی
مجھے اپنی جانب بلاتے رہ گئے
میں نے انگور کی شاخ سے گرتے
نشہ آور پانی سے
آخری غسل کیا
اور آئینے کی طرف پیٹھ کر کے
اپنے سنہری بال
گوندھنے لگا
میں نے اپنے چسم پر
کئی طرح کے رنگ پہن لیے
ان رنگوں کے لیے میں نے
کارتھیج
اور فونیقیہ کا سفر کیا تھا
یہ میرا آخری سنگھار تھا
جو یونانی جنگجو
مرنے سے پہلے کرتے تھے !
میری سپاہ نے
محاصرہ کیے گئے قلعے کے دروازے
اپنے گریبانوں کی طرح کھول دیے
اور دیواروں کو
خوف سے رہائی دے دی
میرے سپاہیوں نے
اپنے ہاتھوں میں
ہتھیاروں کی بجائے
ترازو اٹھا رکھے تھے
ان کی آنکھوں میں آزادی کا خواب تھا
میرے لشکر کو
چہروں پہ رنگ ملتے دیکھ کر
دیوتاؤں کے پاؤں کے نیچے
زمین دھلنے لگی !
میرے پہلو میں کھڑی
سبز عورت نے
سیاہ پسینے میں ڈوبے لشکر کی طرف
جس کے سپہ سالار نے
اپنے جسم پر ہتھیاروں سے زیادہ
نسوانی زیور پہن رکھے تھے
اپنا طلائی نیزہ پھینکنے میں پہل کی
تاکہ کھال کھال سے
اور لوھا لوھے سے
آ ملے
میں نے اپنے سرفروش لشکر کو
سفید لٹھے کا ڈھیر ہدیہ کیا
سپاھی اپنا اپنا کفن
منتخب کرنے میں
عجلت کرنے لگے !
(چراغوں سے بھری گلیاں )
اساطیری نظم
میرے خون میں پرندے پرواز کرنے لگے
(3)
ڈاکٹر جواز جعفری
تیسری بار
میری آنکھ کے مشرق پر
طلوع ھونے سے پہلے
وہ ھڑپہ کی سنسان گلی کے موڑ پہ کھڑی
رونقیں بانٹ رھی تھی
میری اداس آنکھوں نے
اس کے سرسبز جسم کی خوشبو میں گندھی
سرخ پشواز کو چھوا
میرے خون میں بلند پرواز پرندے پھڑپھڑائے
اور ہتھیلیاں
گیلی لکڑیوں کی طرح سلگنے لگیں
میرے دل میں موجزن محبت کا دریا
کناروں سے باھر بہنے لگا
اس کی خواب سرا کی نیم تاریک روشنی
میری آنکھوں میں ہر طرف پھیل گئی
نارسائی
اس کے خدوخال کو
روشنی اور رنگوں میں
سو سو طرح سے گوندھنے لگی !
شام کو میں نے اسے
گنگا کنارے آباد بنارس میں
دھرتی ماتا کے مندر میں دیکھا
برھما دیوتا
کنول کے پھول ہاتھوں میں لیے
اس کی راہ دیکھ رھا تھا
اس نے مندر کے مقدس احاطے میں پاؤں رکھا
خاموشی
ڈھاک اور مرلی کے
سروں میں کلام کرنے لگی
دیوداسیوں کے گندمی جسم
ھوا میں رنگارنگ دائرے بنانے لگے
مقدس دیوتاؤں کی سنہری پیشانیاں
خاک سے جا لگیں
میں نے میخی خط میں تطسیرکردہ
زمین کے بادشاہ بعل کا سندیسہ
برھما کے لافانی ہاتھوں کی نذر کیا
تو مندر کے صحن میں
شہنائی کے اونچے سروں کی بارش ھونے لگی
وہ فارس سے آئی ناھید کے پہلو میں تھی
اور سوریہ دیوتا
اس کے پاؤں میں بیٹھا
روشنی کی بھیک مانگ رھا تھا
میں اھل,سومیر کی جانب سے
سندھو دیش کے ہنرمندوں
اور کنواریوں کے لیے
محبت اور امن کے سندیسے لایا تھا
اس نے لگاوٹ کی اوٹ سے
میرے لیے نظر کی سفارت بھیجی
میں اپنی آنکھیں
اس کے چہرے کے صحیفے پہ رکھ کر بھول گیا!
میرے سامنے وہ چہرہ تھا
میں نےماں کی کوکھ کے اندھیرے میں
جس کے خدوخال کا ورد کیا تھا
وہ چہرہ
میرے خوابوں سے بھی زیادہ دلکش تھا
اس کے نرم بازوؤں میں
سندھ کی رقاصہ کی کمر کا
لوچ تھا
اور چھاتیوں کے درمیان
تیرھویں سر کا ظہور ھو رھا تھا
ہاتھی دانت کے سفید کنگن
کندن سے بنی اس کی کلائیوں کو
حسرت سے دیکھتے تھے
اس کے طلسمی ہاتھوں میں
ھڑپہ کی سنہری مٹی کی الواح تھیں
جن پر تسطیر کی گئی زبان
اس کی جادوئی آنکھوں پر
منکشف ھونے کے لیے بیقرار تھی !
میں نے اس کی نیلی آنکھوں کے دریچے سے
سندھ وادی دیکھنے کی تمنا کی
جہاں دیوتاؤں کی بجائے
سبزے اور
میٹھے پانی کی حکمرانی تھی
جس کے سنہرے کھیتوں میں
فصلوں کی جگہ سونا اگتا تھا
میں نے دریائے سندھ کے کنارے برگد کے سائے میں
تین چہروں والے دیوتا کو دیکھا
وہ یوگیوں
اور جانوروں کا آقا تھا
اس کے سانولے ہاتھوں میں ترشول
اور بانہوں میں
تازہ پھولوں کے گجرے تھے
اس کے اردگرد کھڑے جانور
اجنبی بھاشا میں کلام کرتے تھے !
جب ہڑیہ کی سرزمین
ھمیں رخصت کر رھی تھی
لوگ ایک بوڑھے شخص کو شہربدر کرنے جا رھے تھے
جو سورج کو
دیوتا ماننے سے انکاری تھا
بوڑھے شخص کے دائیں جانب
عورتیں
ایک حاملہ پیڑ کے گرد بیٹھی
اس کی حمد گا رھی تھیں
اور اس کے بائیں اور
درخت کی شاخوں میں چھپا جادوگر
پیڑ سے پانی گرا کر
بارش برسانے کا جتن کر رھا تھا
جلاوطن بوڑھے کے چہرے پہ مسکراھٹ تھی
اور آنکھیں
نئے ٹھکانے کی تلاش میں!
کوہ ہمالیہ سے گزرتے ھوئے
ھم نے ایک مضطرب شہزادے کو دیکھا
جو ایک فقیر کے ساتھ
شاھی لباس کا تبادلہ کر رھا تھا
دنیا
اسے حیرت سے دیکھتی تھی
ھمارے چہرے
لگاش کی جانب تھے
ھمارے دلوں میں بے بہا محبت تھی
اور زنبیل میں
ھزاروں سال پرانے ہندوستانی نوادرات
جنوبی ھند کے گرم مصالحے
سندھ کے الغوزے
ہاتھی دانت کے زیورات
موھنجوداڑو کی خالص کانسی کے
شفاف آئینے
ہڑپہ کی چکنی مٹی کے رنگیلے برتن
سندھ کی خوش بدن رقاصہ کے
طلائی مجسمے
اور ھونٹوں پہ
وادی کے فوک گیتوں کی دھنیں
ھم حیران تھے کہ
ان سوغاتوں میں ایک بھی ہتھیار شامل نہیں تھا !
(چراغوں سے بھری گلیاں)